تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی। زمانے کے امام، ہمارے مولا و آقا، ولی و وارث، منجی عالم بشریت حضرت بقیۃ اللہ الاعظم امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف جن کا وہی نام ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام تھا، ان کی وہی کنیت ہے جو حضورؐ کی کنیت تھی۔ اگرچہ آپ ہماری نظروں سے غائب ہیں لیکن موجود ہیں۔ وہ ہمیں دیکھ رہے لیکن ہم ان کی زیارت سے محروم ہیں۔جیسا کہ مولا امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:
’’ خدا کی حجت لوگوں کے درمیان موجود ہیں۔
وہ راستوں اور گلیوں کو عبور کرتے ہیں، وہ دنیا کے مختلف خطوں میں جاتے ہیں، وہ لوگوں کی باتیں سنتے ہیں اور لوگوں کی جماعت کو سلام کرتے ہیں۔ وہ سب کو دیکھتے ہیں لیکن دکھائی نہیں دیتے۔ یہاں تک کہ حکم پروردگار سے ان کے ظہور کی صدا دنیا میں بلند ہو گی اور وہ دن علیؑ کی اولاد اور چاہنے والوں کے لئے عید کا دن ہوگا۔‘‘
حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف ہم شیعوں کے بارہویں امام ہیں جو حکم خداسے پردۂ غیب میں ہیں اور جب اللہ کا حکم ہوگا تو ظہور فرمائیں گے۔ آپ کی غیبت کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ موجود نہیں ہیں بلکہ آپ موجود ہیں لیکن لوگ آپ کے دیدار سے محروم ہیں اور جب ظہور کریں گے تو لوگ آپؑ کی زیارت سے شرفیاب ہوں گے۔
جس طرح ایک نابینا شخص کے سامنے بینا انسان کی طرح تمام چیزیں موجود ہیں لیکن وہ انھیں دیکھ نہیں پاتا کیوں کہ اس کے یہاں بصارت کا فقدان ہے، نہ کہ موجودات میں کوئی مشکل ہے۔ اسی طرح ہمارے ایمان میں کمزوری ، عمل میں کوتاہی اور اخلاق میں بگاڑ وہ مشکلات ہیں جو ہمارے اور آقا کے درمیان حائل ہیں اور ہم انہیں مشکلات کے سبب ان کی زیارت سے محروم ہیں۔
ہم اس بات کا تو اقرار کرتے ہیں کہ ہمارے امام ؑ موجود ہیں لیکن ہمارا کردار و عمل ہمارے اقرار کی تائید نہیں کرتا ۔
لہذا اپنے مولا و آقا کے ظہور کی تیاری نہ صرف ہمارے لئے ضروری ہے بلکہ ہماری زندگی کا نصب العین ہونا چاہئے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہئیے کہ جب مننتقم خون حسینی ظہور فرمائیں گے تو انہیں وفادار سپاہیوں کا لشکر درکار ہوگا ۔ وہ جس معرکہ میں جہاد کریں گے وہ احد ، حنین و خیبر جیسا معرکہ نہ ہو گا کہ جس میں لشکر بھاگ جائے اور نہ ہی صفین جیسا معرکہ ہو گا کہ سپاہی نیزوں پر بلند قرآن کو دیکھ کر دھوکہ کھا جائیں اور کاغذ پر لکھی آیتوں کو دیکھ کر قرآن ناطق کے خلاف تلوار اٹھا لیں۔ ان کا معرکہ کربلا جیسا ہوگا جہاں امام ؑ کی اطاعت محض لشکر کا مقدر ہوگی۔ جہاں لشکر کو نہ اپنی جان کی پرواہ ہوگی ، نہ مال کی، نہ اولاد کی حتیٰ اپنی آبرو کی۔ جہاں ایسا محکم عقیدہ ہوگا اور اسی پر عمل ہوگا کہ ہماری جان، ہمارا مال، ہماری اولاد اور ہماری آبرو سب اللہ کی دی ہوئی ہے اور ان سب کو اسی کی راہ میں قربان کرنا بندگی کا ہنر ہے اور یہ امام جن کی ہم رکاب میں ہیں وہ ہم پر اللہ کی حجت ہیں ان کی ولایت کا اقرار اللہ کی ولایت کا اقرار ہے۔ ان کا حکم حکم خدا ہے اور ان کا کسی بات سے روکنا اللہ کا روکنا ہے۔
دوسروں پر تبصرہ نہیں ، کسی کی رفتار و گفتار و کردار پر قضاوت نہیں بلکہ اپنے کردار اور اعمال کا محاسبہ اور اس پر وکالت نہیں بلکہ قضاوت ہمارے جیسے منتظرین کی ذمہ داری ہے۔
کیا ہماری آنکھیں اس ولی خدا کی زیارت کے قابل ہیں؟ کیا ہمارا دل ان کے دل سے ہمآہنگ ہے؟ کیا ہمارا کردار ان کے احکام کے موافق ہے؟ کیا ہمارا عقیدہ، ہمارا عمل، ہمارا رویہ، ہمارا اخلاق، ہمارا گھر، ہمارا لباس اور ہمارا چہرہ اپنے امامؑ کی سیرت و کردار کے مطابق ہے؟ اگر نہیں تو اس نہیں کو ہاں کرنا ہماری زندگی کی اہم ذمہ داری ہے۔
اسی بات کو شاعر اہل بیت محترم فرحت سہارنپوری نے خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے:
عبادتوں کے حوالے سے نور چاہتے ہیں
عمل کی راہ میں عقل و شعور چاہتے ہیں
نفاق و کفر کے چھائے ہوئے اندھیروں سے
امام عصر ہمارا ظہور چاہتے ہیں